بنگلورو ،24/ستمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا کی ایم یو ڈی اے اراضی گھوٹالے کے معاملے میں مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے اس کیس میں سدارمیا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کر دیا ہے، جس میں انہوں نے میسور اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم یو ڈی اے) کی جانب سے سائٹ الاٹمنٹ کے سلسلے میں گورنر تھاور چند گہلوت کی تحقیقات کی منظوری کے جواز کو چیلنج کیا تھا۔ یہ فیصلہ سدارمیا کے لیے ایک نیا چیلنج پیش کرتا ہے، جو ان کی سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ میں جسٹس ایم ناگاپراسنا کی سنگل جج بنچ نے واضح طور پر کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ضروری ہے اور گورنر آزادانہ فیصلہ لے سکتے ہیں۔ اس سے قبل ہائی کورٹ نے 12 ستمبر کو تمام سماعت مکمل ہونے کے بعد کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
عدالت نے 19 اگست کے اپنے عبوری حکم میں توسیع کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کے لیے خصوصی عدالت کو ہدایت کی کہ وہ اس کیس میں ان کے خلاف شکایات کی سماعت کرے اور درخواست کے نپٹارہ ہونے تک اس کی کارروائی کو ملتوی رکھے۔
دراصل کرناٹک کے گورنر تھاورچند گہلوت نے 17 اگست کو سدارمیا کے خلاف مقدمہ چلانے کی رضامندی دی تھی۔ اس کے بعد سدارمیا نے گورنر کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ نے 19 اگست کو اس معاملے کی سماعت کی، جہاں وزیراعلی سدارمیا کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے گورنر کے حکم کو غیر آئینی بتاتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دراصل، یہ معاملہ 3.14 ایکڑ زمین کے ٹکڑے سے متعلق ہے، جو ان کی بیوی پاروتی کے نام ہے۔ سماجی کارکنوں کا الزام ہے کہ سدارمیا کی بیوی کو تحویل راضی کے معاوضہ کے طور پر میسور میں 14 پریمیم سائٹس الاٹ کی گئی تھیں، جو کہ مکمل طور پر غیر قانونی تھی اور اس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو 45 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔ تاہم وزیراعلی سدرا رمیا نے ان الزامات کی تردید کی تھی ۔